آئیے لیے چلتے ہیں ہم آپ کو ٹرین کے اِک سفر پر

بلاگ کی تفصیلات ہوم

آئیے لیے چلتے ہیں ہم آپ کو ٹرین کے اِک سفر پر

ہم ناسٹلجیا کے مارے، ماضی پرست لوگوں کا کیا کیجئے، ہمارا ایک مسئلہ تھوڑی ہے۔ ہر شے ہر بات میں ماضی ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اب کیا زمانہ ہے کہ کوئی اپنی خوشی سے ریل پر عازمِ سفر ہو جائے!
بہرحال کچھ دن قبل مجھے لاہور سے اسلام آباد کا سفر درپیش ہوا تو ریل کے سفر کی اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے کی خواہش کو پورا کرنے کی ٹھانی، جو ایک عرصہ سے دل میں پنپ رہی تھی۔
میڈیا میں کراچی اور اسلام آباد کے مابین چلنے والی ایک نئی ٹرین، گرین لائن کا ذکر اچھے لفظوں میں سن رکھا تھا سو اس دفعہ اسے آزمانے کی ٹھانی۔
لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر جب بھی نظر پڑتی ہے انسان مبہوت ہی رہ جاتا ہے کہ کیا ہی عظیم الشان عمارت ہے جو اِس ترقی یافتہ دور سے بھی ڈیڑھ سو سال قبل، محدود وسائل کے باوجود انگریزوں نے تعمیر کر دی تھی، اور ہم ہیں کہ اب اسے سنبھال بھی نہیں سکتے۔ شکستگی کی شکار یہ عمارت اب اپنے ذمہ داروں کی بےاعتنائی کا پتہ دیتی ہے۔ اُڑی ہوئی نارنجی رنگت کے بوسیدہ کُرتے پہنے، صفائی ستھرائی کے جملہ اصولوں سے بے پرواہ قُلی سارے منظر کو گُہنا رہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی طرف کوئی ترتیب، کوئی سلیقہ نظر نہیں آتا۔ خاردار تار زمین پر پڑی ہوئی تھی اور ایک جانب واک تھرو گیٹ دھرے تھے۔ آپ اس میں سے گزریں نہ گزریں، اور کیا لے کر گزریں، وہاں پر متعین سیکیورٹی والے کو اس سے کوئی غرض نہ تھی۔ انتظارگاہ بھی ہر حوالے سے انتظامیہ کی غفلت کی چغلی کرتی دکھائی دیتی تھی۔ میں تو وقت سے بھی کافی پہلے آن پہنچا تھا لیکن جس ٹرین نے تقریباً پونے تین روانہ ہونا تھا، سوا پانچ تک بھی اس کا کوئی اتاپتا نہ تھا۔ خدا خدا کر کے ٹرین آئی اورمیں اس میں سوار ہوا۔ میرے استفسار پر پہلے ہی مجھے سیٹ نمبر بتا دیا گیا تھا اور کہا ٹکٹ اندر ہی بن جائے گی۔ اس سیٹ نمبر پر البتہ کوئی اور صاحب براجمان تھے اور ہمارے اصرار پر ٹکٹ بھی دکھلا دی۔ عملہ نے مجھ سے معذرت کر لی کہ شاید کمپیوٹر سسٹم میں کوئی خرابی ہو گئی ہو، بہرحال میں قریب ہی ایک اور نشست پر کھڑکی کی طرف بٹھا دیا گیا اور میں ٹرین کی روانگی کا انتظار کرنے لگا۔
ڈبے میں کوئی خاص رش نہیں تھا، ایک تین چار سالہ بچے کے چہکنے سے البتہ تھوڑی بہت زندگی کے آثار محسوس ہو رہے تھے۔ ہر سیٹ کے آگے ایک روشن اور مناسب سائز کی سکرین بھی لگی ہوئی تھی۔ سیٹیں بڑی اور قدرے آرام دہ تھیں۔ ان کا کپڑا اور اوپر دھرا سفید رومال البتہ صاف نہ تھا۔ ایسی جگہیں جہاں لوگوں کی بہت آمد و رفت ہو، ریلوے کے ذمہ داروں کو بھی سوچنا چاہیے کہ مصنوعی چمڑے یا ایسے ہی کسی مناسب مٹیریل کا استعمال کرتے۔
ٹرین اب آہستہ آہستہ اسٹیشن کی حدود سے باہر نکلنے لگی۔ ہر طرف ڈھیروں پٹریاں بچھی ہوئی تھیں، بہت سی تو اب زیرِاستعمال بھی نہ لگتی تھیں۔ کچھ پر مال گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے، خدا جانے چلتے بھی تھے یا نہیں۔ پٹریوں کے درمیان خودرو پودے اور گھاس اگی ہوئی تھی۔ صفائی کا معاملہ یہاں بھی دِگر گوں ہی تھا۔
ٹرین آبادیوں کے بیچ میں سے گزرنے لگی تو اس امر سے میں خوب لطف اندوز ہوا کہ پٹریوں سے متصل گھروں نے انہیں اپنا پچھواڑا بنا رکھا تھا۔ اکثر جگہوں پر لوگوں نے کرسیاں، بینچ حتٰی کہ چارپائیاں بھی ڈال رکھی تھیں۔ کہیں کہیں چھوٹی ٹولیوں میں بزرگ خوش گپیوں میں مشغول تھے تو کہیں نوجوان گپ شپ لگا رہے تھے۔ کچھ جگہوں پر تو سنوکر کے میز بھی پٹری کے ساتھ ہی دھرے تھے۔ (دنیا والوں کے برعکس، امیروں کے اس کھیل کے ساتھ ہم پاکستانی اچھا سلوک کرتے ہیں!)
چھوٹے بچے بچیاں اپنے کھیل کود میں مصروف تھے۔ ہر عمر کی عورتیں گھروں میں کام کاج کرتیں، یا پڑوسنوں سے گپیں لگاتی نظر آئیں۔ ان سب لوگوں میں مگر ایک بات مشترک تھی، اتنے قریب سے اور وہ بھی ریل جتنی بڑی ہیئت کی سواری گزرنے سے بظاہر وہ لاتعلق نظر آرہے تھے۔ شاید ان کے لیے وہ ایک عام بات تھی اور وہ اس کے عادی ہو چکے تھے۔
شام کا دھندلُکا جلد ہی رات کے اندھیرے میں بدل گیا اور میری توجہ اور نگاہ اب ریل کے ڈبے کے اندر مرکوز ہو گئی۔ عملے کے کچھ لوگ ادھر ادھر پھرتے نظر آرہے تھے۔ ایک صاحب ہاؤس کیپر کا یونیفارم پہنے سرسری سا جھاڑو مارتے پاس سے گزرے تو ہمیں سلام داغ دیا۔ سلام کی حد تک تو اچھی بات تھی، ہمارے مذہب کا منشا بھی یہی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی جاننے نہ جاننے والے لوگوں کو خوشدلی سے سلام کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے زوال پذیر معاشرے میں اس کا رواج کہاں، سو میرا ماتھا ٹھنکا۔ سفر کے اختتام سے پہلے یہ گُتھی بھی سلجھ گئی جب وہ جھاڑو پکڑے دوبارہ نمودار ہوا اور ہر نشست کے آگے پیچھے سرسری سا جھاڑو لگا کر چائے پانی کے پیسے مانگنے لگا۔
بیت الخلاء کی صفائی کے عملہ کا بھی جملہ لوازمات کے ساتھ ایک دفعہ گزر ہوا۔ ان کے دھاگوں والے جھاڑو اور وائپر خود اس قدر گندے تھے کہ کیا ہی صفائی کرتے ہوں گے، اور پھر اس آمدورفت کے دوران ان سے گندا پانی بھی ٹپک رہا تھا۔
ٹکٹ چیکر ہوں، گارڈ ہوں، صفائی کا عملہ، اشیائے خور ونوش فراہم کرنے والے، یا عملے کے دیگر افراد، ذاتی صفائی ستھرائی کا اہتمام شاید ہی کسی نے کر رکھا تھا۔ یونیفارم عمومی طور پر ملگجے تھے، زیادہ تر کی شرٹیں باہر نکلی ہوئی تھیں، اکثر نے ربڑ کی کھلی جوتیاں پہن رکھی تھیں، کچھ لوگوں نے انواع اقسام کی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں، بعض کی آستینیں بھی چڑھی ہوئی تھیں، اور غیرتراشیدہ داڑھیاں بھی کم نہ تھیں۔
عملے سے توجہ ہٹی تو مسافروں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ انداز و اطوار سے بھانپا تو ریلوے کے محکمے کے دو افسر بھی سفر کرتے نظر آئے۔ جونیئر افسر کانوں سے فون لگائے، اونچی آواز سے باتیں کرتا، ادھر سے ادھر جاتا رہا اور عملے کو طلب کرکے اپنے اور اپنے سینیئر کے لیے خاطر مدارت اور تواضع کا اہتمام کرواتا رہا۔ ٹرین اور بس جیسی عوامی سواریوں میں فون پر باآواز بلند بات کرنا اور اپنی ساتھی سواریوں کےآرام میں خلل ڈالنا تو وطنِ عزیز میں کوئی عیب سمجھا ہی نہیں جاتا، نہ ہی اس بات کی کوئی پرواہ ہوتی ہے کہ دیگر لوگ بھی آپ کی ذاتی، خانگی یا کاروباری باتیں سن رہے ہوں گے۔ اس پر ظلم یہ کہ بعض لوگ اونچی آواز میں موبائل فونوں پر ویڈیو سے خود تو لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں، دوسروں کا آرام البتہ غارت کر دیتے ہیں۔ مجھے امریکہ میں ٹرین کا سفر یاد آگیا جس میں ہر سیٹ کے ساتھ شیشے پر ایک سٹکر چسپاں تھا کہ موبائل کو بند یا خاموش رکھیں اور انتہائی ضرورت کی صورت میں دھیمی آواز میں مختصر بات کریں۔
ڈبے میں چونکہ محض چند سواریاں ہی تھیں سو گھومنے پھرنے کی خاصی آزادی تھی۔ میں نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈبے کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھنگالنا شروع کر دیا۔ ڈبے کے ایک سرے پر الیکٹرک واٹر کولر دھرا تھا، اس کی حالت چغلی کھا رہی تھی کہ شاید ہی کوئی اس کی صفائی یا صاف پانی کا اہتمام کرتا ہوگا۔ پھر ایک کچن نما حصہ تھا، شیشے سے اندر جھانکا جا سکتا تھا، فرش پر گتے کے چند ٹکڑے بچھے ہوئے تھے، ایک چھوٹا موٹا فریج بھی نظر آرہا تھا۔ کچن بظاہر پورے استعمال میں نہ تھا، اگر اس کو استعمال میں لایا جاتا تو شاید ہر ڈبے میں تازہ اشیائے خور و نوش فراہم کی جا سکتی تھیں۔ ڈبے کی ایک جانب دیوار پر آگ بجھانے والے آلات نصب تھے۔ قریب ہو کر دیکھا تو پتہ چلا کہ سلنڈر ایکسپائر ہو چکے تھے اور کسی کو انہیں بدلنے کی توفیق نہ ہوئی تھی، گویا آگ لگ جائے تو وہ بے کار تھے۔ ایسے حالات ہوں تو سمجھا جا سکتا ہے کہ آئے روز ٹرینوں کے حادثات کیوں ہوتے ہیں اور ان میں اس قدر جانی نقصان کیسے ہو جاتا ہے؟
چھت پر نظر ڈالی تو پنکھے ہی پنکھے نظر آئے۔ یوں کہہ لیجئے کہ پنکھوں کی بھرمار تھی۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستانی ٹرینوں کے ڈبوں میں اس قدر پنکھے کیوں لگائے جاتے ہیں! انتہائی بدنمائی کا باعث بنتے ہیں اور یقیناً شور بھی کرتے ہوں گے۔ کم از کم بیرونی دنیا کا جس قدر سفر میں نے کر رکھا ہے، میں نے تو دوسرے ملکوں کی ٹرینوں میں اس طرح سے پنکھے لگے ہوئے نہیں دیکھے۔ ذرا قریب ہو کر دیکھا تو پنکھے ایک پاکستانی کمپنی کے بنے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ ٹرینوں کے ڈبے تو عام طور پر ہم چین سے منگواتے ہیں تو گویا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض "ناگزیر وجوہ” کی بنیاد پر کسی کو نوازنے کے لیے پنکھے اس قدر بڑی تعداد میں خریدے اور ٹرینوں میں لگائے جاتے ہوں۔ اور اگر حسنِ ظن سے کام لیں تو یہ سوچا جا سکتا ہے کہ دہائیوں پہلے کسی خاص حالات میں پنکھے لگانے کا فیصلہ ہوا ہوگا اور بعدازاں ریلوے کے کرتے دھرتوں کو توفیق ہی نہیں ہوئی ہوگی کہ نئے تقاضوں کے پیشِ نظر اس فیصلے کا ازسرنو جائزہ لے لیتے، بس جیسا چلتا آ رہا ہے ویسا ہی چل رہا ہے۔
صفائی کی عمومی صورتحال دیکھتے ہوئے بیت الخلاء میں جھانکنا بھی خاصے دل گردے کا کام لگ رہا تھا۔ خیر میں یہ بھی کر گزرا۔ صفائی ندارد، گیلا پن، صابن کی ایک ٹکی، اورٹوائلٹ پیپر کے خالی رول۔ اچھی بات البتہ یہ تھی کہ دو مختلف بیت الخلاء میں ضرورت اور سہولت کے مطابق دو مختلف طرح کی سیٹیں موجود تھیں۔ یہاں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بیت الخلاء کی گندگی میں ہماری اپنی جہالت کا بھی خاصا قصور ہوتا ہے۔!
"تحقیق” سے فارغ ہو کرمیں واپس اپنی نشست پر آ بیٹھا۔ سامنے کی سکرین کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کر دی۔ کچھ چوائس بہت نہ تھی، کچھ چینل ویسے کام نہیں کر رہے تھے۔ ایسے میں ٹام اینڈ جیری نظر آئے تو میں رہ نہ سکا اور انہیں لگا لیا۔ بظاہر ٹام اینڈ جیری کے تنازعات جو ہم بچپن سے دیکھتے چلے آرہے تھے اب تک حل نہ ہوئے تھے اور دونوں کی جنگ بدستور جاری تھی۔ اسی دوران ایک مسافر جو غالباً کراچی سے سفر کرتے ہوئے آرہے تھے عملے سے شکوہ کرنے لگے کہ اتنی دیر گزر جانے کے بعد بھی چائے نہیں پیش کی جا رہی تھی، جو اس سفر کے پیکج کا حصہ تھی۔ کچھ دیر میں عملے کا ایک فرد کاغذ کے گلاسوں میں چائے لے کر آ گیا اور مسافروں میں تقسیم کر دی۔ چائے میں "چائے پن” بہت تو نہیں تھا، نہ گرم تھی نہ لذیذ، تازگی سے بھی عاری تھی لیکن میں نے اسے بھی غنیمت جانتے ہوئے حلق سے اتار دیا۔ سفر کے دوران دو سموسیاں بھی پیش کی گئیں جسے میں نے بہت رغبت سے تناول کرنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ تازگی، خستگی اور ذائقے سے اس قدر پاک تھیں کہ مجھے پہلے نوالے کے بعد ہی اپنے ارادوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ ہاں ایک رسیوں میں جکڑ ی خراب حالت میں ٹرالی بھی چکر لگاتی رہی جس سے آپ چِپس، بسکٹ وغیرہ خرید سکتے تھے۔ مجھے قیمت کچھ زیادہ لگی تو ریٹ لسٹ دیکھنے کا تقاضا کر دیا، ریڑھی والے نے میرا اور میں نے اس کا منہ تکنا شروع کر دیا۔ اس نے ریڑھی کو آگے بڑھا دیا اور میں نے مارے خجالت کے کھڑکی کے باہر آنکھیں جما لیں۔
یہ سب کچھ ریلوے کی ایک نئی ٹرین کا احوال تھا جو وہ سب سے اہم اور مصروف روٹ پر چلاتے ہیں، اور جسے ان کے اربابِ اختیار ایک ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ باقی ٹرینوں کا کیا احوال ہوتا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ اگر پاکستان ریلوے لاہور اور اسلام آباد کے مابین چلنے والے اس روٹ پر ہی محنت کر لے بلکہ اس میں اسلام آباد پشاور، کراچی حیدرآباد، کراچی لاہور اور لاہور فیصل آباد کے روٹوں کا بھی اضافہ کر لیجئے تو اتنا مسافر ملے گا کہ ہر دو گھنٹے کے بعد ٹرین چلانا بھی شاید کم پڑ جائے، اور اتنی آمدن ہونے لگ جائے گی کہ ریلوے کی مکمل حالتِ زار ہی بدل جائے۔ نقصان تو درکنار انتہائی منافع بخش ادارہ بن جائے گا اپنا یہ پاکستان ریلوے۔
اس روداد کو بھی تنقید کے زمرے میں نہیں لینا چاہیے بلکہ ایک محبِ وطن پاکستانی کی تحریر سمجھیے جو ملک میں بہتری دیکھنے کا خواہاں ہے اور اسی نیت سے ان مشاہدات کو اربابِ اختیار کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔
لوٹتے ہیں اب سفر کی جانب۔
ٹرین ہر کچھ دیر بعد رک جاتی تھی۔ شاید سامنے سے آنے والی ٹرینوں کو راستہ دینا مقصود ہوتا تھا یا اپنے گزرنے کے لیے کسی پٹری یا پلیٹ فارم کے خالی ہونے کا انتظار۔ ہر دفعہ ٹرین ابھی رفتار پکڑتی ہی تھی کہ "وقتِ قیام” آ جاتا تھا۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ ٹرین کے ڈبے کے باہر تو 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار خاص طور پر درج کی گئی تھی لیکن ٹرین نے پورے سفر میں اس کے نصف کو بھی شاید ہی چھوا ہو، پھر رفتار درج کرنے کا فائدہ؟
ہم ساڑھے گیارہ کے لگ بھگ مرگلہ ریلوے اسٹیشن داخل ہوئے، یہی کوئی دو چار گھنٹے لیٹ۔ اسلام آباد کی خُنک فضا میں، ٹرین سے نکلنے کے بعد پلٹ کر ڈبے پر ایک الوداعی نگاہ ڈالی اور باہر کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ سالوں بلکہ دہائیوں کے بعد ٹرین کا سفر اختیار کرنے کا موقع ملا تھا، اب خدا جانے کب یہ ملاپ ہو!

تبصرے (0)

ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں ہے۔ پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں!

تبصرہ کریں

ہمیں ایک پیغام بھیجیں

صاف رابطے کی معلومات فراہم کریں، بشمول فون نمبر، ای میل اور پتہ۔

Ready to Fight for Your Rights?

With years of experience, we've successfully defended countless clients, To be securing their rights and helping them navigate the legal system.